تجھے دل سے اتارا بھی نہیں ہے
مگر پہلے سا پیارا بھی نہیں ہے
ہمارا ساتھ چلنا بھی ہے مشکل
مگر بچھڑیں گوارا بھی نہیں ہے
خدا Ø+افظ کہیں اک دوسرے Ú©Ùˆ
سوائے اس کے چارہ بھی نہیں ہے
نہیں ہوں اب میں تیرے دل کی ٹھنڈک
تو تُو آنکھوں کا تارا بھی نہیں ہے
تری چاہت کو دوں تشبیہ کس سے
کہ ایسا استعارہ بھی نہیں ہے
اگرچہ وہ ہمارا بن نہ پایا
مگر لکھ لو، تمہارا بھی نہیں ہے
شناسائی تو کیا، آنکھوں میں اس کی
وفا کا اک اشارہ بھی نہیں ہے
پلٹ آتی میں ہر رنجش بھلا کر
مگر اس نے پکارا بھی نہیں ہے
نہیں ہے جیت کی اُمید کوئی
مگر یہ دل کہ ہارا بھی نہیں ہے
کرن سُورج کی مجھ کو چھوکے گزرے
اُسے یہ تک گوارا بھی نہیں ہے
وہ اک رشتہ کہ رشتہ بھی نہیں‘ پر
بِنا اُس کے گزارہ بھی نہیں ہے
سنا ہے عشق ہے ایسا سمندر
کوئی جس کا کنارہ بھی نہیں ہے
ثبین